ہماری غلطی ہے ہم نے دہشت گردوں کو چھوڑا، اسحاق ڈار

6 months ago 47

اسلام آباد(این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سابق وزیر خزانہ اورسینٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہماری غلطی ہے کہ ہم نے سخت دہشت گردوں کو چھوڑاجنہوں نے ایسا کیا انہیں ٹی وی پر بلا کر ان سے معافی منگوائی جائے۔ پیر کو یہاں سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ کس نے کہا تھا کہ کابل میں طالبان کو انگیج کریں، کس نے کہا تھا کہ سخت دہشت گرد جو جیل میں تھے انہیں چھوڑیں؟ دو چار افراد کو قوم کی تقدیر سے گھناؤنی سازش کرنے کی کس نے اجازت دی تھی؟اسحاق ڈار نے کہا کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملے پر معاملہ عروج پر پہنچا، اس کے بعد شراکت داروں کے اجلاس میں شواہد سامنے آئے، ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہم نے پلان میں کہا اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، ہمیں واضح طور پر روڈ میپ اپنانا ہوگا۔

سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول واقعے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت اچھے کام کرے تو سیکشن 232 نہیں آتا، کوئی حملہ کردے تو کیا ہم 232 کا انتظار کریں گے، کسی ملک کو 6 ماہ فریزر پر رکھا جاتا ہے کہ کچھ نہ کریں، وقت ضائع کیے بغیر کام کریں۔قائد ایوان نے کہا کہ سعدیہ عباسی نے کہا افغانوں سے چیزیں چھینی جا رہی ہیں یہ دکھ والی بات ہے، حکومت یقینی بنائے کہ ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے، اس کی کوئی حمایت نہیں کرتے کہ غیر قانونی پناہ گزینوں کو نہ نکالیں، مہاجرین کی جو چیزیں ہیں ساتھ لے جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو با عزت طریقے سے واپس بھیجنا چاہیے۔سینٹ میں خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ افغان مہاجرین بھیڑ بکریاں نہیں ہیں، ہمیں غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کے تعین کا کوئی طریقہ کار بنانا ہو گا،افغانستان میں بیامنی کا اثر پاکستان پر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف فلسطین میں ظلم ہورہا ہے دوسری طرف ہم یہ زیادتی کر رہے ہیں۔عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم نے 40 سال انہیں رکھا، اب ہم ان کو ایسے نکال رہے ہیں، افغان مہاجرین کو تہذیب اور طریقے سے واپسی کا راستہ دکھائیں۔

انہوںنے کہاکہ اس طرح جبر اور ظلم سے افغان مہاجرین کو بے دخل نہ کریں، افغانستان میں بیامنی کی لہر اٹھتی ہے اس کے ڈانڈے پاکستان تک آتے ہیں۔ن لیگی سینیٹر نے کہا کہ 80ء کی دہائی میں جب مہاجرین کی آمد ہوئی، ہم اس وقت جنگ میں شریک تھے، ہم نے 40 سال میں افغان مہاجرین سے متعلق واضح پالیسی نہیں بنائی۔انہوں نے کہا کہ جو مہاجرین آئے ان کے پچے پیدا ہوئے، یہاں ان کی نسلیں پیدا ہوئیں، افغان مہاجرین کی 3 نسلیں پیدا ہو چکیں، ہمیں اب احساس ہوا کہ ہم سے غلطی ہوئی۔عرفان صدیقی نے کہا کہ پہلے ہم انہیں بانہیں پھیلا کر لائے اب زبردستی نکال رہے ہیں، کیا افغانوں کو ویزا جاری کیا تھا، کیا یہ ٹینکوں پرآئے تھے، چھاتہ برداروں کی طرح آئے تھے؟انہوںنے کہاکہ چلیں مان لیں غیر رجسٹرڈ کو رہنے کی اجازت نہیں، جو رجسٹرڈ ہیں انہیں تنگ کیا جا رہا ہے، یہاں تو افغان پناہ گزینوں کو ڈنڈے مار رہے ہیں۔(ن )لیگی سینیٹر نے کہا کہ غزہ کے لیے ہم بات کر رہے ہیں، لیکن یہاں سے افغانوں کو نکال رہے ہیں، کچھ خدا کا خوف کریں، ظلم ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دھوکا دینے کے لیے کہتے ہیں ہم افغانیوں کو نہیں غیر ملکیوں کو نکال رہے ہیں، پوچھتا ہوں کیا یہاں امریکا کے غیر ملکی آباد ہیں، جن کو نکال رہے ہیں؟عرفان صدیقی نے کہا کہ آپ افغانوں کو دشمن بنا کر بھیج رہے ہیں ڈنڈتے مار کر نہ بھگائیں۔جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہاکہ نگران حکومت معدنیات کی وزارت بنانے جارہی ہے ،اگر وفاق نے مالیات کی وزارت بنانی ہے تو اٹھارہویں ترمیم کی فاتحہ پڑھ لیں ۔ انہوںنے کہاکہ سارے کام نگران حکومت نے کرنے ہیں تو منتخب حکومت کیا کرے گی ؟۔ انہوںنے کہاکہ کوئٹہ سے دن دیہاڑے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے ۔سینیٹر کامران مرتضی نے کہاکہ آج افغان مہاجرین کو دہائیوں بعد ذبردستی کہا جا رہا ہے کہ واپس چلے جائیں ،کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ قومی اسمبلی کی غیر موجودگی میں سینٹ کو اعتماد میں لیا جاتا۔

انہوںنے کہاکہ افغان مہاجرین کی زبردستی واپسی کے فیصلے کا آج کوئی اونر نہیں ہیانہوںنے کہاکہ کم از کم ہم افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھجوانے میں شریک نہیں ۔انہوںنے کہاکہ ہم افغان مہاجرین کو رسوا کر واپس بھجوا رہے ہیں،کیا ایسا کرنا جائز ہے۔سینیٹر عمرفاروق نے کہاکہ چمن ہمارا ڈسٹرکٹ ہے جہاں کئی ہفتوں سے احتجاج جاری ہے ،چمن میں دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے کے بارڈر پر رہتے ہیں ،چمن کے لوگوں کا قبرستان افغانستان میں ہے ،افغانستان کے لوگوں کا قبرستان چمن میں ہے ،یہاں صرف مٹی ٹیلے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ ہم پاسپورٹ کے ذریعے آنے جانے کے احکامات کو نہیں مانتے۔

سینیٹر شفیق ترین نے کہاکہ افغانیوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے ،وہ خوشی سے نہیں جا رہے ،انہیں لوگ جائیداد بھی بیچنے کی اجازت نہیں دے رہے ،افغان مہاجرین کو بھیجنے کے لئے وقت دیا جائے ۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہاکہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجا جا رہا ،صرف غیر قانونی رہنے والے لوگوں کو بھیجا جا رہا ہے۔ اجلاس کے دور ان قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے کہاکہ پاک افغانستان کی طویل تاریخ ہے اور اتنی ہی طویل تاریخ بد گمانیوں کی ہے ،دونوں ممالک پڑوسی بھی ہیں اور لا محالہ اثر دونوں پر پڑتے ہیں ،علامہ اقبال سے اسے دل قرار دیا ہے ،یہ دل پیار محبت سے چلے سنگدلی سے نہیں ۔

انہوںنے کہاکہ 80 کے بعد خانی جنگی کوئی مہاجرین ائے طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد بھی یہ پاکستان آئے ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہت بڑی جنگ لڑی،حالیہ کچھ دنوں میں اس دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہوا ۔ انہوںنے کہاکہ کسی بھی ریاست کی بنیادی زمہ داری عوام کی حفاظت کرنا ہے ،پاکستان نے اس معاملے کو افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر اٹھایا ۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کو کہا کہ آپ کی سرزمین کسی ممالک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے اقدامات بھی اٹھائے اور بارڈز کو کافی بہتر بنایا گیا ،صرف دہشت گردی نہیں، ڈالر اسمگل ہوتا تھا۔انہوںنے کہاکہ اشیائے خوردونوش کی اسمگلنگ کو روکا گیا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ دوہفتے کیلئے مصر گیاتھا موشن بھی جمع کروائی اس کو ایجنڈے پر لے لیں،سرفراز بگٹی نے 24خودکش حملوں میں 14کا تعلق افغانستان سے بتایا،اس معاملے پر کمیٹی آف ہول کا اجلاس بلایا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ بتایا جائے کہ باقی 10حملوں میں کون ملوث تھا ،ایسے معاملات میڈیا پر نہیں ،ملکوں کے درمیان بات چیت ہوتی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ پی آر او کارڈ کی مدت آپ نے نہیں بڑھائی اس طرح افغانیوں کو غیر قانونی تو آپ نے کیا۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اور افغانستان بھائی ہیں ،آپ روس کے حملے کے وقت آپ کہتے تھے افغان ہماری جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میں کورٹ جارہا ہوں نگران حکومت کا اختیار ہی نہیں وہ پالیسیاں بنائیں،آپ نے افغانستان کے خلاف اڈے دیئے تاہم نمک حرام افغانستان کو کہتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ دوسری طرف بھی کچھ نادان ہیں ،نگران حکومت کو یہ کام منتخب حکومت کو کرنے دینا چاہیے ۔

انہوںنے کہاکہ افغانیوں کو نکالنا ہے تو اس کے لیے یواین سی آر اور افغانستان کی حکومت کو اعتماد میں لیا جائے۔مولانا عبدالغفور حیدری نے کہاکہ افغان مہاجرین کا پاکستان میں 30سے 35فیصد کاروبار ہے،افغان مہاجرین کے ساتھ جو ہورہا ہے اس کا نہ کوئی ضابطہ ہے اور نہ کوئی قانون ہے۔انہوںنے کہاکہ اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہئے تھی،حکومت اس معاملے پر غور کرے۔ انہوںنے کہاکہ افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھجوایا جارہاہے جو افسوس اور شرمناک ہے،اگر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانا ہے تو انہیں باعزت طریقہ اختیار کیا جائے۔سینیٹر منظور احمد نے کہاکہ افغانستان اور تاریخ سب کے سامنے ہے،چالیس برس میں افغان عوام کی نسل کشی ہوئی ہے۔انہوںنے کہاکہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چند روپوں کے عوض افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ کس نے دیا؟۔انہوںنے کہاکہ پاکستانی شناختی کارڈ جاری کرنے والوں کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی،کوئی سزا نہیں ملی۔

انہوںنے کہاکہ دنیا میں اسی سب کہیں دہشت گردی ہوتی ہے تو بدنام پاکستان ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر انسانیت اور مہمان نوازی کی بات کریں تو چالیس برس مہمان کو رکھنے کے بعد اچانک انہیں نکال رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ انہیں غیر مناسب طریقے سے نکالا جارہاہے،پہلے پکڑتے اور پھر پیسے لے کر چھوڑ دیتے ہیںانہوںنے کہاکہ بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے اور اس میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے۔انہوںنے کہاکہ ہمیں افغان مہاجرین بھائیوں کو عزت سے واپس بھجوانا چاہیے،افغان مہاجرین کے معاملے کو بعض افراد سیاسی ایشو بنانا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کے تحت ہی معاملات ہونے چاہئیںجو غیر ملکی یہاں رہائش پزیر ہیں انہیں وطن واپس بھیجوایا جائے مگر بہتر انداز میں۔

سینیٹر عمر فاروق نے کہاکہ ہم نے 40 سال افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کی،اب افغانوں سے نامناسب سلوک کر کے انہیں واپس بھجوایا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغان مہاجرین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھجوایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں آج تک نہیں بتایا گیا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کون ملوث ہے،ایوان کو اس بارے میں حقائق سے اگاہ کرنا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ افغانوں سے مناسب سلوک کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری 40 سال کی میزبانی ضائع ہو جائے۔

انہوںنے کہاکہ جس مقصد کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا وہ پورا نہیں ہوسکا ،ہمیں اس پالیسی پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔نسیم احسان نے کہاکہ کبھی ہم افغان مہاجرین کے آنے پر خوش تھے کیونکہ اس کے بدلے ہمیں اربوں ڈالر ملے تھے۔ انہوںنے کہاکہ ایران نے افغان مہاجرین کے لیے الگ کیمپ مقرر کر رکھے تھے،جو افغان بلوچستان میں رہ رہے ہیں انہوں نے اپنے بچوں کی پاکستان میں شادیاں کی ہیں۔انہوںنے کہاکہ اب دہائیوں بعد آپ اچانک افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھجوا رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ایسا نہ ہو کہ زبردستی بھجوائے گئے افغان ایسی تنظیموں کوجوائن کر لیں جو پاکستان کے خلاف ہوں،بعض قوتیں پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمیں سخاوت سے کام لینا چاہیے اور اس مسئلے پر افغان حکومت سے بات کرنی چاہیے۔