برسوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہزاروں افغان باشندے روپوش ہوگئے

6 months ago 46

اسلام آباد (این این آئی)انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے دستاویزات کے بغیر مقیم افراد کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد برسوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہزاروں افغان باشندے روپوش ہوگئے ہیں کیونکہ وہ اپنے آبائی ملک میں طالبان انتظامیہ کے تحت ظلم و ستم کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں۔غیرملکی میڈیا کے مطابق نامعلوم مقام سے 23 سالہ افغان خاتون نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کا دروازہ باہر سے بند ہے، ہم اندر قید ہیں، ہم لائٹس نہیں جلا سکتے یہاں تک کہ ہم زور سے بات تک نہیں کر سکتے۔

روپوش دیگر لوگوں نے کہا کہ مقامی حامیوں نے پڑوسیوں کو گھر کے خالی ہونے کا یقین دلانے کے لیے دروازے پر تالا لگا دیا ہے۔کابل سے تعلق رکھنے والی خاتون نے کہا کہ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ افغانستان واپس لوٹ گئیں تو ان پر طالبان انتظامیہ کی جانب سے مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ 2019 میں انہوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور اسلامی عقیدے کو ترک کرنا طالبان کے سخت قانون کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق یہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جو پاکستان میں روپوش ہوگئے ہیں تاکہ وہ حکومت کی جانب سے غیر دستاویزی مہاجروں کو ملک چھوڑنے کے دبا کے تحت بے دخلی سے بچ جائیں۔انتظامیہ نے یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد ملک گیر کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔کراچی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن 30 سالہ سجل شفیق حکومت کی اس پالیسی سے قبل کئی کمزور افغان شہریوں کو رہائش کی تلاش میں مدد کی ہے، وہ سپریم کورٹ سے ملک بدری کے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کرنے والے دیگر درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں۔سجل شفیق کے مطابق میں ان ہزاروں لڑکیوں کو جانتی ہوں جو کہتی ہیں کہ وہ طالبان کی حکومت کے ماتحت رہنے کے بجائے مرنا پسند کریں گی۔

انہوں نے کہاکہ ان سب کے کچھ خواب اور عزائم ہیں جو افغانستان میں پورے ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں عورتوں کو زیادہ تر کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور وہ مرد محافظ کے ساتھ ہی سفر کر سکتی ہیں۔طالبان انتظامیہ کے ترجمان کی جانب سے اب تک اس پر کوئی بیان جاری نہیں ہوا کہ واپس لوٹنے والوں کی اسکریننگ کی جائے گی یا ان کے قوانین کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔پاکستان کی وزارت داخلہ اور خارجہ کی جانب سے بھی خطرے سے دوچار افراد کو ملک بدری کے عمل سے چھوٹ دینے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔حکومت نے اب تک اقوام متحدہ، مغربی سفارت کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنان کی جانب سے ملک بدری کے منصوبے پر نظر ثانی یا ان افغانوں کی شناخت اور حفاظت کرنے جنہیں گھر پر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کے مطالبے کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔امریکا سمیت دیگر مغربی سفارت کاروں نے انتظامیہ کو ان لوگوں کی فہرست بھی فراہم کردی ہے جن کی ممکنہ طور پر بیرون ملک منتقلی کے لیے کارروائی کی جارہی ہے اور کہا ہے کہ ان کو ملک سے بے دخل نہ کیا جائے مگر ان لوگوں کی تعداد خطرے سے دو چارافراد کے مقابلے میں کم ہے۔

میڈیا نے ملک گیر کارروائی سے بچنے کے لیے روپوش ہونے والے کئی غیر دستاویزی تارکین وطن سے بات کی تاہم انہوں نے موجودہ حالات کے پیش نظر شناخت ظاہر کرنے یا نام استعمال کرنے سے منع کر دیا۔رپورٹ کے مطابق ان افراد میں 35 سالہ عیسائی مذہب قبول کرنے والا باپ بھی شامل ہے، جو اپنی 9 سالہ بیٹی کے ساتھ فرار ہو کر پاکستان آگیا تھا۔پناہ گاہ میں موجود ایک جوان لڑکی نے بتایا کہ ان کو اپنی زندگی کے حوالے سے خطرہ لاحق ہے کیونکہ اس کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے جن کو کئی برسوں تک افغانستان میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔رات کے وقت لائٹس کی بندش یقینی بنانے والے 22 سالہ افغان لڑکے نے کہاکہ یہ جیل سے بھی بد تر ہے۔

چند مقامی جو افغان شہریوں کی مدد کر رہے ہیں، کھانے اور پانی کا بندوبست کرتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں خفیہ طور پر ضروری سامان پناہ گاہ میں پہنچا دیتے ہیں۔افغان گلوکار 28 سالہ وفا پاکستان میں اپنے پناہ کے دن ختم ہونے سے خوفزدہ ہیں، جہاں وہ دو سال پہلے طالبان کے قبضے کے بعد منتقل ہوگئی تھیں کیونکہ ان کا ویزا ختم ہوگیا ہے۔اسلام آباد میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سے بات کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ میں امید کرتی ہوں کہ مجھے فرانس یا کینیڈا میں پناہ مل جائے یا وہ پاکستان کو ہی اپنا گھر بنالیں کیونکہ انہوں نے 11 سال پہلے پشتو گلوکاری شروع کی تھی اور وہ اب افغانستان میں قابل قبول نہیں اور طالبان نے عوام میں موسیقی کی پرفارمنس پر پابندی عائد کر دی ہے۔